آفتِ وہم کو خبر نہ سمجھ
اپنے جیسا انہیں بشر نہ سمجھ
نسبتِ نُور سے ہے طلعت یاب
نقشِ نعلین کو قمر نہ سمجھ
جان ، اَولیٰ کا معنئ مطلوب
جان کو اُن سے پیشتَر نہ سمجھ
شافعِ حشر کا ہو دامن گیر
اور پھر حشر کو خطَر نہ سمجھ
اُن کے الطافِ بے نہایت کو
اپنی خواہش پہ منحصَر نہ سمجھ
شہرِ بہجت کے اذن یاب نصیب
اس کو معمول کا سفر نہ سمجھ
اُن کو آنا ہے ، اُن کو آنا ہے
صرف دیوارِ جاں کو در نہ سمجھ
جو نہیں باریابِ بابِ ثنا
ایسے حرفوں کو معتبَر نہ سمجھ
سامعِ عرضِ بے طلَب ہیں وہ
خامشی کو بھی بے ثمر نہ سمجھ
خاکِ طیبہ ہے مطلعِ انوار
نُور کو ریزۂ گُہر نہ سمجھ
نعت توفیقِ محض ہے مقصودؔ
اس کو تدبیر یا ہُنر نہ سمجھ