آقا غلام کب سے ہے اس انتظار میں
خیرات اذن کی ملے پہنچے دیار میں
پہنچوں جو در پہ آپ کے، سر ہو جھکا ہوا
آنکھوں کے ساتھ ساتھ ہو دل بھی خمار میں
اس درپہ دیکھی نور کی برسات ہر گھڑی
قدسی بھی فیض پاتے ہیں ہر دم قطار میں
آتے ہیں تیرے شہر کی سب خاک چومنے
مجھ کو بھی شوق ہے یہی تیرے دیار میں
زاہدؔ مرے نصیب میں طیبہ کا ہو چمن
پڑھتا رہوں درود میں ہر اک بہار میں