آقا کی محبت ہی مرے پیشِ نظر ہو
درپیش مجھے جب بھی مدینے کا سفر ہوں
لگ جائیں مری سوچ کو پر کاش کبھی جو
پرواز مری پہلی ہو احمد کا نگر ہو
وہ کیف ِ حضوری ہو مجھے طوفِ نظر کا
اپنا ہی پتہ ہو ، نہ کسی کی بھی خبر ہو
درکار نہیں کچھ بھی مجھے شعر و سخن سے
اِک نعت تری بس مری محنت کا ثمر ہو
کرتے ہیں ترے اسم کا سارے ہی وظیفہ
اشعرؔ وہ فرشتہ ہو ، کوئی جن کہ بشر ہو