اپنی اوقات میں رہ، داؤ پہ حسرت نہ لگا
بَردئہ شہرِ نبی ہُوں مری قیمت نہ لگا
اذن ہوتا ہے تو کُھل جاتا ہے توفیق کا در
نعت کے عرش کو چُھونا ہے تو ہمّت نہ لگا
پاسِ آدابِ عقیدت ہے مرے غُرفہ نشیں
نقشِ نعلین کے اُوپر کوئی صورت نہ لگا
اُن کے ہاں ملتی ہے اظہار سے ماقبل نیاز
مانگنے والے سنبھل ! نعرئہ حاجت نہ لگا
بے ردا سَر پہ وہ رکھتے ہیں ثنا کی چادر
وارثِ حرف و بیاں طُرّۂ نُدرت نہ لگا
واپسی شہرِ مدینہ سے ہے اب قیمتِ جاں
دل سے مَیں کہتا رہا ہُوں کہ طبیعت نہ لگا
معنیٔ منصبِ محمود کی عظمت کو سمجھ
اُن کی قامت کے برابر کوئی قامت نہ لگا
کافی ہے خانۂ دل میں وہی اسمِ رحمت
بہرِ تبریک کوئی اور عبارت نہ لگا
نسبتِ خاک سے چمکے گا یہ مقصودؔ ابھی
چہرے پر اور کوئی غازئہ طلعت نہ لگا