اردوئے معلیٰ

اپنی ہستی حباب کی سی ہے

عمر ساری سراب کی سی ہے

 

حبِ سرکار گر نہ ہو دل میں

زندگانی عذاب کی سی ہے

 

ہجر طیبہ میں بے کلی ہے بہت

’’حالت اب اضطراب کی سی ہے‘‘

 

عمرِ سرکار کا ہر اک لمحہ

سامنے اک کتاب کی سی ہے

 

عاصیوں پر حضور کی رحمت

چھاؤں ٹھنڈی سحاب کی سی ہے

 

ہے گناہوں کا بوجھ بھی سر پر

دھوپ بھی آفتاب کی سی ہے

 

آپ شاید یہاں سے گزرے ہیں

بو فضا میں گلاب کی سی ہے

 

یاد ان کی توانا رکھتی ہے

عمرِ پیری شباب کی سی ہے

 

یادِ طیبہ میں ہر گھڑی اپنی

اک سہانے سے خواب کی سی ہے

 

ان کے لب کی جلیل جنبش بھی

اک مفصل خطاب کی سی ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔