اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل

صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا

لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل

آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا

اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل

تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے

افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل

لے دے کہ آشنا بھی یہی کم نصیب تھا

بعد از شکستِ دل بھی سہارا ہوا یہ دل

کچھ آسماں بھی راس نہٰیں آ سکا اسے

کچھ آسمان کو نہ گوارا ہوا یہ دل

آئینہ فراق میں حیرت سے جھانکتا

ساکت کھڑا ہے تیرا سنوارا ہوا یہ دل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

الجھے ہوئے ہیں عمر کی شاخوں کے ساتھ ہم

نکلے تھے رقص کرنے بگولوں کے ساتھ ہم وقتِ سحر کھلی ہے تو اوقات رہ گئی اترے تھے ایک آنکھ میں خوابوں کے ساتھ ہم دیوار و در پہ رقص کناں دیکھتے ہوئے مانوس ہو چلے ہیں ہیولوں کے ساتھ ہم بنتِ قمر کوئی تھی ، کہ خورشید زاد تھے آخر بجھا دیے گئے پھونکوں […]