اک انوکھی طرب سے روشن ہے
گنبدِ سبز سب سے روشن ہے
حضرتِ جبرائیل کا ماتھا
اُن کو معلوم کب سے روشن ہے
ہر ستارہ نظامِ شمسی کا
اُن کے رخسار و لب سے روشن ہے
قوتِ دید اُس نگاہ کی سوچ
وہ جو دیدارِ رب سے روشن ہے
نقشِ نعلین دل پہ رکھتا ہوں
طاقِ دل اُس کی چھب سے روشن ہے
روزِ محشر مری یہ فردِ عمل
مدحِ ماہِ عرب سے روشن ہے
صبحِ طیبہ سے پہلے شب دیکھیں
کس عجب طرز و ڈھب سے روشن ہے
جب سے دیکھا ہے گنبدِ اخضر
میری بینائی تب سے روشن ہے
ہر دو عالم کا منظرِ ہستی
نورِ محبوبِ رب سے روشن ہے