اک کرم اور کرم بانٹنے والے کر دے
میری سانسوں کو درودوں کے حوالے کر دے
طائر سدرہ ہیں جس در کے گداگر یارب
میری قسمت میں اسی در کے نوالے کر دے
دے مجھے مرہم دیدار شہ کون و مکاں
دور دل سے مرے ارمان کے چھالے کر دے
جن سے سیراب ہوا کرتے ہیں اخیار ترے
ابر اس سمت بھی وہ رحمتوں والے کر دے
جن کی تحویل میں محفوظ رہے دین کا قصر
میرے اللہ مہیا وہ رسالے کر دے
حرمت شاہ امم پر جو لٹادیں جانیں
دین کو پھر سے عطا ایسے جیالے کر دے
اس کی امداد میں اک پل کی بھی تاخیر نہ ہو
جب کوئی مجھ کو صدا نام ترا لے کر دے
شہر مدحت میں مرے نام کا سورج چمکے
میری گویائی کے انداز نرالے کر دے
مٹنے دیتے نہیں دنیا کی چمک رب کریم
تو زمیں بوس مرے دل کے شوالے کر دے
خوف سے جن کے ہوئے جاتے ہیں چہرے پیلے
گل صفت ہاتھ وہ سب پتھروں والے کر دے
نورؔ کو نور کی نگری میں عطا کر مسکن
چشم بے نور کی قسمت میں اجالے کر دے