حضور ہی ہیں
چراغِ راہ ہدایت ایسےحضور ہی ہیں
چراغِ راہ ہدایت ایسے
کہ جو ازل سے ابد تلک زندگی کے
تمام تر قافلوں کی ہر آن رہنمائی کو ضوفشاں ہیں
حضور ہی ہیں
وفا کا وہ ماہتاب جس کی شفیق کرنوں میں
چہرہ جور و جفا ہرگز نکھر نہ پایا
اِک آفتابِ نبوت ایسا کہ بعد جس کے
کوئی بھی ایسا اُبھر نہ پایا
وہ جن سے صحنِ زمیں ہے روشن
وہ جن کے دستِ کرم کا پرتوَ یہ آسماں ہیں
حضور ہی ہیں
وہ ایک اُمّی نبی جنہوں نے کتاب کوئی پڑھی نہیں تھی
مگر وہ اسرار جانتے تھے
ازل سے تا ابد وہ سارے نظام و ادوار جانتے تھے
وہ جن کی تعلیم عدل و اخلاق و آگہی سے
ہزاروں عالم عظیم تر مرتبے کو پہنچے
وہ جن کو تعلیمِ ربّ ملی ہے
جو فرش تا عرش ارتقاء کی
تمام کڑیوں کے رازداں ہیں
حضور ہی ہیں
وہ جن کی آمد سے پھیلی نورِ یقیں کی کرنیں
جہاں سے رُخصت ہوئے اندھیرے
جہالت و گمرہی سے سب نے نجات پائی
جو علم و حکمت کا آستاں ہیں
شعور کا بحرِ بیکراں ہیں
حضور ہی ہیں
جنہوں نے لکھا فلاحِ انسانیت کا منشور
وہ جن کے ابلاغ نے صداقت کا ہم کو بخشا شعور ایسا
حیات جن کی کتابِ ہستی کا ایک روشن تریں ورق ہے
اُخوتوں کا امانتوں کا صداقتوں کا حسیں سبق ہے
نقوش سب جن کے جاوداں ہیں
حضور ہی ہیں
جنھوں نے باغِ سخن کو میرے
کرم کی خوشبو سے بھر دیا ہے
میں ان کی مدحت جو لکھ رہا ہوں
کرم ہے ان کا
وہ میرے آقا
غلام پر اپنے مہرباں ہیں
حضور ہی ہیں