اردوئے معلیٰ

ایک سے ایک سخن ور ہے مگر کس میں مجال

جو کرے شاہِ دو عالم کی ثنا تا بہ کمال

 

ان کی تخلیق میں صناعی فطرت کا کمال

شکل و صورت کی کہیں ان کی نہ سیرت کی مثال

 

بدرِ کامل ہے نہ خورشید نہ انجم نہ ہلال

پیکرِ حسن کی تمثیل ہی ملنی ہے محال

 

امتزاج اتنا حسیں صورتِ زیبا میں کہ بس

اک طرف حسن و جمال ایک طرف رعب و جلال

 

آپ کے خلق کو خالق نے کہا خلقِ عظیم

نگہِ عشق میں اس درجہ وہ فرخندہ خصال

 

شہرِ طیبہ کے لئے کوچ کیا را توں رات

پاتے ہی حکمِ خداوندِ جہاں جلّ جلال

 

اس بلندی نے خوشا چوم لئے پائے حضور

جس بلندی پہ نہ پہنچے پرِ پروازِ خیال

 

کتنا عالی ہے وہ دربارِ مدینہ کہ جہاں

ہیں سلاطین بھی پھیلائے ہوئے دستِ سوال

 

اپنی امت کی طرف پھر ہو نگاہِ الطاف

آخرت کی نہ جسے فکر نہ اندیشۂ حال

 

ہیں پسِ مرگ بھی صدیقؓ و عمرؓ پہلو میں

دونوں خوش بختوں کو حاصل ہے ترا کیفِ وصال

 

عرصۂ حشر کی ہیبت سے سبھی ہیں ترساں

دیدنی ہے تو فقط ان کے غلاموں کا مآل

 

ان کے روضہ کی زیارت سے مشرف ہو نظرؔ

یا الٰہی ہے مرا تجھ سے یہی ایک سوال

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات