اے ختم رسل ، رحمت کل ، صاحب اخلاق
ہیں زیر نگیں آپ کے اب انفس و آفاق
فرمائی ہے تقدیر امم آپ نے روشن
شاہد مرے دعویٰ پہ ہیں تاریخ کے اوراق
معراج کی شب عظمت انساں کی علامت
خالق بھی ہوا ان کی ملاقات کا مشتاق
جس آب میں ڈالا ہے لعاب دہن پاک
وہ آب ہوا کوثر و تسنیم کے صداق
پڑھتے ہیں درود آپ پہ سب نوری و ناری
ہیں مداح سرا صبح و مسا خلقت و خلاق
تہذیب کے داعی ہیں یہاں ظالم و جابر
یاد آتے ہیں اس حال میں بس آپ کے اشفاق
وہ بدر جو چمکا تھا مضافات قبا سے
تابندہ و پر نور اسی سے ہوئے آفاق