اے خدائے بحر و بر ، بابِ نعت وا کر دے
ہر سخن قبیلے کو ، نعت آشنا کر دے
کھول دے مری جانب روشنی کی سب راہیں
ٹال دے شبِ ظلمت صبحِ نو عطا کر دے
لفظ کو رہائی دے لوحِ نا شگفتہ سے
حرفِ ناصیہ سا کو واقفِ ثنا کر دے
میری ہر تمنا کو رکھ جوارِ بطحا میں
میری ساری سوچوں کو جانبِ حرا کر دے
واسطہ تجھے مولا کربلا کے پھولوں کا
رنج و غم کی ان دیکھی قید سے رہا کر دے
زندگی کا گلشن ہے زرد رت کے چنگل میں
زندگی کا یہ گلشن پھر ہرا بھرا کر دے