اردوئے معلیٰ

اے راحتِ جاں ، فرحتِ دل ، حاصلِ دیدہ !

کٹتے نہیں اب ہجر کے لمحاتِ کبیدہ

 

توفیقِ ثنا ہو تو کفِ حرف میں آئیں

احساس میں کِھلتے ہوئے گُلہائے چنیدہ

 

موجود بہ ہر طَور ہے طلعت ترے در کی

منقوش ترے دَم سے ہے عالَم کا جریدہ

 

ہونا ہے نمو یاب شہِ دیں کے کرم سے

ہے دل جو مرا صورتِ یک شاخِ بُریدہ

 

ممکن نہیں اب اور سنبھالے سے یہ سنبھلے

لے آیا تو ہُوں در پہ ترے ضبطِ رمیدہ

 

زیبا ہے تجھے عرض سے پہلے ہی عنایت

اظہار مرا خام ہے ، دامن ہے دریدہ

 

تھامے ہوئے اظہارِ عقیدت کی تمنا

ہے زیرِ معانی کمرِ لفظ خمیدہ

 

چاہیں گے کوئی خاص ہی پیرایۂ اظہار

تعمیم سے بالا ترے اوصافِ فریدہ

 

معراج کی حیرت نے کیا راز ہویدا

تھے آپ کے دو گام وہ اَبعاد بعیدہ

 

توفیق طلَب آپ کی درگاہِ ثنا میں

حاضر ہے ، مرے فکر کی ہر فصلِ دمیدہ

 

اُس پیکرِ کامل کی ثنا گوئی کی خاطر

مقصودؔ اُتاری گئیں آیاتِ مجیدہ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ