اردوئے معلیٰ

بامِ احساس پہ چمکے شبِ دیدار کے دیپ

چہرۂ طلعتِ کُل، گیسوئے خمدار کے دیپ

 

مدحتِ صیغۂ ضو بار کا یہ مہرِ سخن

بجھنے دیتا ہے کہاں خامۂ نادار کے دیپ

 

موجۂ حرف سے کِھلتے نہیں امکان کے رنگ

نعت کے آگے مچلتے نہیں اظہار کے دیپ

 

مَیں مدینے میں ہُوں یا مجھ میں ہے وہ شہرِ کرم

نسبتِ نُور سدا رکھتے ہیں آثار کے دیپ

 

نُور کے پردوں کے ما بعد ہے وہ نُور فشاں

شوق بس چوم کے آ جاتا ہے دیوار کے دیپ

 

راستے خود ہی دکھاتے رہے معراج کی شب

راہ سے آگے چمکتے ہوئے رہوار کے دیپ

 

روشنی کر گئے تا حشر وہ طلعت کے امام

شبِ کربل میں جو چمکے ترے گھر بار کے دیپ

 

جاری ہے مہر و مہ و نجم کی دریوزہ گری

روشنی بانٹ رہے ہیں ترے انوار کے دیپ

 

چھٹ ہی جائے گا شبِ ہجر کا بے نام سکوت

غم کے موسم میں کِھلے ہیں مرے غمخوار کے دیپ

 

عجز نے رکھ دیا قدموں میں سرِ شوقِ طلب

خانۂ فہم میں چمکے ترے اَسرار کے دیپ

 

منتظِر اذن و عنایت کے ہیں مقصودؔ ابھی

جاگ اُٹھیں گے یہ سب ٹوٹتے پندار کے دیپ

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات