اردوئے معلیٰ

بامِ تعبیر پہ کھِلتا ہُوا مژدہ دیکھا

جب مری آنکھ نے توصیف کا ثمرہ دیکھا

 

ایک احساس تھا، احساس بھی ما بعدِ نظر

کیسے خاشاک نے اک نور کا حُجرہ دیکھا

 

دوڑتا پھرتا تھا آنکھوں کا براقِ تشویق

دل نے تو محض تری سمت کا رستہ دیکھا

 

نعت لکھنے کی تمنا میں بصد شوق و نیاز

اذن کے دَر پہ سر افگندہ یہ خامہ دیکھا

 

پُوری ترتیب سے رکھا ہے سعادت کا سفر

حدِ میقاتِ مدینہ سے ہی مکہ دیکھا

 

پڑھ لیا جب تری عظمت پہ درود اور سلام

پھر دعاؤں نے عطاؤں کا کرشمہ دیکھا

 

کون ٹھہرے گا بھلا اس کے تناظر کا امیں

چشمِ نم نے جو ترے شہر کا نقشہ دیکھا

 

یہ نہیں تھیں بخدا، یہ تو نہیں تھیں بخدا

سوچتا ہُوں کہ کن آنکھوں نے مدینہ دیکھا

 

ایک ساعت میں سمٹ آیا زمانوں کا وصال

کاسۂ ہجر میں جب دید کا لمحہ دیکھا

 

بعد میں نعت کے مطلع پہ ہُوا حرف طلوع

پہلے احساس نے مقصودؔ وہ چہرہ دیکھا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات