اردوئے معلیٰ

بجھتے بجھتے بھی اندھیروں میں کرن چھوڑ گیا

وہ مرا شوخ ستارہ جو گگن چھوڑ گیا

 

خواب تو خواب مجھے نیند سے ڈر لگتا ہے

جانے والا مری پلکوں پہ شکن چھوڑ گیا

 

اُس نے بھی چھوڑ دیا مجھ کو زمانے کے لئے

جس کی خاطر میں زمانے کے جتن چھوڑ گیا

 

کسی زیور کی طرح اُس نے نکھارا مجھ کو

پھر کسی اور کی جھولی میں یہ دھَن چھوڑ گیا

 

دے رہا ہے مجھے پسپائی کے طعنے وہ بھی

میری رفتار میں جو اپنی تھکن چھوڑ گیا

 

بھول جانے کی قسم لے گیا وہ رشکِ گلاب

یاد رکھنے کو مہک، رنگ، چبھن چھوڑ گیا

 

دستکِ دستِ طلب بس میں نہیں تھی اس کے

سو میں دہلیز پہ خود اپنا بدن چھوڑ گیا

 

نہ کوئی آگ لگائی، نہ ڈھلا پانی میں

کیسا آنسو تھا کہ آنکھوں میں جلن چھوڑ گیا

 

تھک کے بیٹھا تھا برابر میں کوئی پاس مرے

اور مرے کاندھے پہ برسوں کی تھکن چھوڑ گیا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات