برف کے فرش پہ قدموں کو جما کر کھینچوں
عمر کا بوجھ مری جان دعا کر کھینچوں
دم جو گھٹتا ہے بہر طور گھٹا جاتا ہے
یوں تو میں سانس بہت زور لگا کر کھینچوں
ایک منظر کہ جسے دید لٹا کر دیکھا
اس کا نقشہ ہے کہ آواز گنوا کر کھینچوں
اس سرے سے بھی مری لاش گھسٹتی آئے
میں اگر خواب کو زنجیر بنا کر کھینچوں
بھیڑ ہے اور سراسیمہ ہوا بیٹھا ہوں
تیرا دامن جو میسر ہو تو جا کر کھینچوں
جھک کے جو محو تماشہ ہے ابھی ناو سے
ڈوب جاوں کہ اسے ہاتھ بڑھا کر کھینچوں
تار ہو کر جو کبھی اپنے جگر سے گزروں
دوسری سمت سے پھر آپ ہی آ کر کھینچوں