بزمِ الفاظ میں طیبہ کی مہک جاگ اٹھی
پھول کھلنے لگے غنچوں کہ چٹک جاگ اٹھی
ان کا جب نامِ معطر میرے لب پر آیا
دشتِ دل میں میرے سبزے کی لہک جاگ اٹھی
یاد کیا آج مجھے صبحِ مدینہ کا خیال
میری بے نور نگاہوں میں چمک جاگ اٹھی
فکرِ احمد رضا جس دن سے سخن ساز ہوئی
شعر میں عشق کے لہجے کی کھٹک جاگ اٹھی
قافلے جانے لگے شہرِ نبی کو مظہرؔ
دل کے سوئے ہوئے زخموں میں کسک جاگ اٹھی