بس ایک جیسے ملے لوگ بار بار مجھے
کہ تجربہ نہ ہوا کوئی خوشگوار مجھے
بہت دنوں سے جو الجھن ہے ، مجھ کو لگتا ہے
ملے گا جاں سے گزر کر ہی اب قرار مجھے
کسی بھی شے کے مناسب جگہ نہیں کوئی
پسند آتا ہے کمرے کا انتشار مجھے
میں عمر بھر جسے پلکوں پہ لے کے پھرتا رہا
وہ چاند چہرہ نظر آئے ایک بار مجھے
تمام شہر میں ہیں میرے تذکرے قیصرؔ
بنا دیا ہے محبت نے اشتہار مجھے