بس گئی ہے دل میں آقا کی محبت کی مہک
کر گئی جاں کو معطر اُن کی شفقت کی مہک
ہر گھڑی رہتی ہیں یہ پیاسی نگاہیں منتظر
کاش مل جائے کبھی اُن کی زیارت کی مہک
میرے لب پر ہیں ترانے آپ کی توصیف کے
اور سمائی ہے مری سانسوں میں مدحت کی مہک
جب سے آقا کی غلامی کی سعادت مِل گئی
دیتی ہے تسکین دل کو اُن کی نسبت کی مہک
گلشنِ طیبہ کے غنچے، پھول کلیاں واہ واہ
ہے بہاروں کا سماں آتی ہے جنت کی مہک
ذکرِ احمد سے ملی ہے میرے مَن کو روشنی
ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اُن کی جلوت کی مہک
مِٹ گئی ہیں دوریاں اَب زندگی پُر کیف ہے
مِل گئی ہے ناز کو آقا کی قربت کی مہک