بن جاؤں کبھی میں بھی مدینے کی مکیں کاش
قدموں میں بُلا لیں وہ مجھے عرش نشیں کاش
مِل جائیں مقدر سے کبھی وصل کی گھڑیاں
کِھل جائے مسرت سے مرا قلبِ حزیں کاش
پھر شام و سحر دیکھا کروں جلوے حرم کے
اور بیٹھی رہوں گنبدِ خضرا کے قریں کاش
روضے پہ سلامی کی جو مِل جائے سعادت
چوکھٹ پہ جھکاتی رہوں مَیں اپنی جبیں کاش
ہونٹوں پہ دُرودوں کے سلاموں کے ہوں نغمے
اور پیش کروں پھول عقیدت کے حسیں کاش
پھر عمر یہی گزرے ہے یہ ناز کی حسرت
مدفن کو بھی مل جائے جو یہ پاک زمیں کاش