بھر دیئے گئے کاسے، بے بہا عطاؤں سے
پوچھنا مدینے سے، لوٹتے گداؤں سے
ان کے عشق کا امرت، پی لیا تھا گھٹی میں
ان کا نام سیکھا تھا، ہم نے اپنی ماؤں سے
سرورِ امم مجھ کو، اذنِ لب کشائی دیں
حرفِ نعت لایا ہوں، اپنے ساتھ گاؤں سے
اے حبیبِ ما اب تو، مرہمِ زیارت دیں
مارِ ہجر ڈستا ہے، مجھ کو سب دشاؤں سے
آپ بس اشارہ دیں، ہم کشاں کشاں آئیں
خواہشِ سفر ہم نے، باندھ لی ہے پاؤں سے
یہ جو ہم مدینے میں، جا کے جی سے جاتے ہیں
ہم کشید کرتے ہیں، زندگی فضاؤں سے
حشر میں بھی ہم ناعت، لطف لے رہے ہوں گے
سبز سبز گنبد کی، نرم نرم چھاؤں سے