اردوئے معلیٰ

بہت ہی لُطف آتا تھا پڑے رہ کرمدینے میں

بڑا ہی خوشنُما لگتا تھا ہر منظر مدینے میں

وہاں کے پھول کیا کانٹے بھی تھے خوشتر مدینے میں

بلالو پھر مجھے اے شاہِ بَحر و بَر مدینے میں

’’ میں پھر روتا ہوا آؤں ترے در پر مدینے میں‘​‘​

 

مرے اللہ نے رکّھا ہے وہ جوہر مدینے میں

سُکون و چین ملتا ہے تو بس جاکر مدینے میں

گلِ امّید کِھلتا ہے ہَوا کھا کر مدینے میں

بلالو پھر مجھے اے شاہ بحر و بر مدینے میں

’’میں پھر روتا ہوا آؤں ترے در پر مدینے میں‘​‘​

 

مَزا ملتا تھا مجھکو اے مرے دِلبر مدینے میں

سناتا تھا میں اپنا حال رو رو کر مدینے میں

بَہَل جاتا تھا یوں اپنا دلِ مضطر مدینے میں

بلالو پھر مجھے اے شاہِ بحر وبَر مدینے میں

’’میں پھر روتا ہوا آؤں ترے در پر مدینے میں‘​‘​

 

مجھے طیبہ کا سچّا عشق دیدے اے خدائے پاک

غمِ طیبہ میں یہ آنکھیں مری ہردم رہیں نَم ناک

مجھے وہ دن دکھا یا رب برائے صاحبِ لَولاک

میں پہنچوں کوئے جاناں میں گریباں چاک سینہ چاک

’’گِرا دے کاش مجھکو شوق تڑپا کر مدینے میں‘​‘​

 

بڑھو نازوں کے پالو ! جاؤ جاؤ فِی اَمانِ اللہ

مقدَّر کے جِیالو ! جاؤ جاؤ فِی اَمانِ اللہ

مَہِ طیبہ کے ہالو ! جاؤ جاؤ فِی اَمانِ اللہ

مدینے جانے والو ! جاؤ جاؤ فی اَمانِ اللہ

’’کبھی تو اپنا بھی لگ جائے گا بِستر مدینے میں‘​‘​

 

مدینے کی زمیں پر بیخودی طاری رہے تم پر

وَفورِ شوق و مَستی میں دُرودِ پاک ہو لب پر

پَھٹا جاتا ہو سینہ اور بَہی جاتی ہو چَشمِ تر

سلامِ شوق کہنا حاجیو ! میرا بھی رو رو کر

’’تمھیں آئے نظر جب روضۂ اَنور مدینے میں‘​‘​

 

مُبارَک تم کو خوشیوں کا سویرا قافلے والو

مری نظروں میں چھایا ہے اندھیرا قافلے والو

جدائی کے غموں نے مجھکو گھیرا قافلے والو

پیامِ شوق لیتے جاؤ میرا قافلے والو

’’سُنانا داستانِ غم مری روکر مدینے میں‘​‘​

 

سبھی کی مشکلیں ہو جاتی ہیں کافور طیبہ سے

کوئی سائل پلٹتا ہی نہیں رَنجور طیبہ سے

زمانے کے ستائے ہو گئے مسرور طیبہ سے

مرا غم بھی تو دیکھو مَیں پَڑا ہوں دور طیبہ سے

’’سُکوں پائے گا میرا یہ دلِ مُضطر مدینے میں‘​‘​

 

مرے خوں بار ارمانو ! پکارے جاؤ تم اُن کو

نہ کھوؤ جان مَستانو ! پکارے جاؤ تم ان کو

کریم اُن کو یقیں جانو پکارے جاؤ تم ان کو

نہ ہو مایوس دیوانو ! پکارے جاؤ تم ان کو

’’بلائیں گے تمھیں بھی ایک دن سروَر مدینے میں‘​‘​

 

ہماری حَسرتوں کو بھی نکالو یا رسولَ اللہ

ہمیں صدمات کی زد سے بچا لو یا رسولَ اللہ

بلاکے طیبہ دامن میں چُھپا لو یارسولَ اللہ

بلالو ہم غریبوں کو بلا لو یارسولَ اللہ

’’پَئے شبّیر و شبّر فاطمہ حیدر مدینے میں‘​‘​

 

نظر آ جائے جو روضہ مجھے شاہِ دوعالَم کا

ابھی کانٹا نِکل جائے مرے دل سے ہر اِک غم کا

سنبھل جائے یَکایَک حال میری چشمِ پُر نم کا

خُدایا ! واسطہ دیتا ہوں تجھ کو غوثِ اعظم کا

’’دکھادے سبز گنبد کا حسیں منظر مدینے میں‘​‘​

 

جو مل جائے مدینے میں ٹھکانہ زندگی بھر کا

ہم اپنے آپ کو سمجھیں گے شاہنشہ مقدّر کا

بھرم رکھ لے اِلٰہی ! چشمِ تر اور قَلبِ مُضطر کا

وسیلہ تجھ کو بوبکر و عمر عثمان وحیدر کا

’’اِلہی تو عطا کردے ہمیں بھی گھر مدینے میں‘​‘​

 

رسولُ اللہ کے آگے مجھے یوں شرمساری ہو

یہ چہرہ سُرخ ہو قلب و نظر میں بیقراری ہو

مری اِن پُر خطا آنکھوں سے پَیہَم اشک جاری ہو

مدینے جب میں پہنچوں کاش ایسا کیف طاری ہو

’’کہ روتے روتے گرجاؤں میں غش کھاکر مدینے میں‘​‘​

 

نہ میرے آگے سر ڈالے فقیر و تاجوَر آئے

نہ میرے ہاتھ میں فانی جہاں کا مال و زر آئے

مرے سرکار میرا صِرف یہ ارمان بَر آئے

نِقابِ رُخ اُلٹ جائے ترا چہرہ نظر آئے

’’جب آئے کاش تیرا سائلِ بے پر مدینے میں‘​‘​

 

کرم کردے کہ اب پوری مری امّید ہو جائے

تری طَلعَت سے یہ دل غَیرتِ خورشید ہو جائے

مدینہ آتے آتے مجھکو تیری دید ہو جائے

جو تیری دید ہوجائے تو میری عید ہو جائے

’’غم اپنا دے مجھے عیدی میں بُلوا کر مدینے میں‘​‘​

 

مدینہ میں جہاں پر ہیں سبھی عُشّاق کے ڈیرے

میں جب پہنچا وہاں مَستی میں اِس دنیا سےمنہ پھیرے

خوشی اور غم کے اشکوں نے بنائے اِس طرح گھیرے

مدینے جونہی پہنچا اشک جاری ہو گئے میرے

’’دمِ رُخصت بھی رویا ہِچکیاں بھر کر مدینے میں‘​‘​

 

حیاتِ عاشقاں دنیا میں بِالکُل طاق ہوتی ہے

طبیعت اُن کی ہر دم یار کی مُشتاق ہوتی ہے

لِقائے یار زَہرِ ہِجر کا تِریاق ہوتی ہے

جدائی کی گھڑی عاشق پہ بیحد شاق ہوتی ہے

’’وہ روتا ہے تڑپ کر ہچکیاں بھر کر مدینے میں‘​‘​

 

قَلَق ہے گلشنِ دنیا کے مَتوالے دماغوں میں

ہر اِک بُلبُل ہے نالاں ، گُم ہے ہر گُل غم کے داغوں میں

بَس اِک رونے کی کیفیّت ہے مالی کے چَراغوں میں

کہیں بھی سوز ہے دنیا کے گلزاروں میں باغوں میں

’’فَضا پُر کیف ہے لو دیکھ لو آکر مدینے میں‘​‘​

 

مدینے کی کشِش کیا چیز ہے ؟ مت پوچھ اے سائل

کروڑوں لوگ بِن دیکھے اُسے دے بیٹھے اپنا دل

دلِ بے اِختیار اپنا بھی اُس کی سَمت ہے مائل

وہاں اِک سانس مل جائے یہی ہے زیست کا حاصِل

’’وہ قسمت کا دھنی ہے جو رہا دم بھر مدینے میں‘​‘​

 

ارے زاہد ! یہ کیا ہے ، کیا جُنوں ہی چھا گیا تجھ پہ

بتا تیری سمجھ میں کیوں نہیں آتی حقیقت یہ

بَہارِ خُلد قرباں ہے گُلِ طیبہ کی نَکہت پہ

مدینہ جنّتُ الفِردوس سے بھی ہے حسیں تَر کہ

’’رسولُ اللہ کا ہے روضۂ انور مدینے میں‘​‘​

 

کہو کیونکر یہاں ہم در بدر کی ٹھوکریں کھائیں

سہارا کس سے مانگیں کس کو اپنا حال بَتلائیں

یہ کب تک دُکھ اٹھائیں کب تلک رنج و اَلم کھائیں

چلو چوکھٹ پہ ان کی رکھ کے سر قربان ہو جائیں

’’حیاتِ جاوِدانی پائیں گے مَر کر مدینے میں‘​‘​

 

مرے اندر مَحبّت میں تڑپنے کا قرینہ ہو

مدینے کی مَحبّت میں مرا مَرنا ہو جینا ہو

مجھے حاصل فنا فِی العِشق کا ایسا خزینہ ہو

مرا سینہ مدینہ ہو مدینہ میرا سینہ ہو

’’مدینہ دل کے اندر ہو دلِ مُضطر مدینے میں‘​‘​

 

مری یہ آرزو ہے جو کہ سب پر ہو چکی ہے فاش

مدینہ میں ہمیشہ کیلئے ہو میری بٗود و باش

مگر تیری رِضا پر ہے نچھاور میرا تن، من، لاش

پَئے تبلیغِ سنّت تو جہاں رکّھے ، مگر اے کاش

’’میں خوابوں میں پہنچتا ہی رہوں اکثر مدینے میں‘​‘​

 

نہ مجھکو جامِ عِشرت دے نہ مجھکو نام و شُہرت دے

نہ مُلکوں کی سِفارت دے نہ آفاقی سِیاحت دے

نہ دنیا کی مَسرَّت دے نہ بے چینی سے راحت دے

نہ دولت دے نہ ثَروَت دے مجھے بس یہ سعادت دے

’’ترے قدموں میں مَرجاؤں میں روروکر مدینے میں‘​‘​

 

مری نظروں میں اب جَچتا نہیں دنیا کا یہ گلشن

بھلا اِس کیلئے کیونکر لٹاؤں اپنا تن من دھن

پُکارے جا رہی ہے اب مرے سینے کی ہر دھڑکن

عطا کردو عطا کر دو بقیعِ پاک میں مَدفَن

’’لَحَد بن جائے میری یا شہِ کوثر مدینے میں‘​‘​

 

مرے آقا یقینًا تم ہو فیض وجُود کے مَخزَن

جو ملتاہے کسی کو تم سے ہی ملتا ہے وہ قَطعًا

عُبیدِ قادری کی بھی کرو تقدیر یوں روشن

عطا کر دو عطا کر دو بقیعِ پاک میں مَدفَن

’’لحد بن جائے میری یا شہِ کوثر مدینے میں‘​‘​

 

مدینہ جا کے خوش ہوتا ہے جو بھی غم کا مارا ہے

مدینہ دنیا بھر کے بے سہاروں کا سہارا ہے

زبانِ خلق کہتی ہے وہ بیچاروں کا چارہ ہے

مدینہ مجھکو اے عطؔار ! جان و دل سے پیارا ہے

’’کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبَر مدینے میں‘​‘​

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ