تری صورت حسیں تر از مہِ کامل سمجھتے ہیں
تری سیرت کو ہم قرآن کا حاصل سمجھتے ہیں
تجھے ہم رونقِ دنیائے آب و گل سمجھتے ہیں
اسے محفل تو تجھ کو شمعِ محفل سمجھتے ہیں
تری نسبت اس عالم سے کچھ اہلِ دل سمجھتے ہیں
اسے محمل تو تجھ کو شاہدِ محمل سمجھتے ہیں
شریعت کو تری مفتاحِ ہر مشکل سمجھتے ہیں
بہر پہلو ترے ہی دین کو کامل سمجھتے ہیں
تصور ہی سے جس کے مضطرب دل کو قرار آئے
اسی ہستی کو بس ہم عشق کے قابل سمجھتے ہیں
اگر کچھ شان و شوکت ہو گی ان کے اپنے گھر ہو گی
ترے در پر شہ و سلطاں کو ہم سائل سمجھتے ہیں
جو برگشتہ ہوا تم سے وہ ہے بے عقل و سرگشتہ
جو وارفتہ ہوا تم پر اسے عاقل سمجھتے ہیں
جہاں تک نقشِ پا تیرے نظرؔ آتے رہیں ہم کو
وہاں تک ہر قدم ہم جانبِ منزل سمجھتے ہیں