ترے در سے اُٹھ کے جانا ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
درِ غیر پہ ٹھکانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
جہاں یار ہو نہ میرا ، ہو جہاں نہ اُس کا پھیرا
وہاں میرا آنا جانا ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
ترا ذکرِ خیر دلبر ، ہے ازل سے میرے لب پر
کسی اور کا فسانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
مجھے کیا غرض جہاں سے ، کہ جہانِ عاشقی ہیں
مرے کام کا زمانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
جہاں برق کی نظر ہو ، جہاں بجلیوں کا ڈر ہو
وہاں میرا آشیانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
رکھے کفرِ عشق سے جو کسی دل کو دُور ایسا
ترا حُسنِ کافرانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
یہ میں جانتا ہوں پُرنمؔ ، جو نہ سمجھیں دوستی کو
مرا اُن سے دوستانہ ، کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا