تمناؤں کو اجلا کر لیا ہے
مدینے کا ارادہ کر لیا ہے
رقم کرنی ہے مجھ کو نعتِ آقا
ورق یوں دل کا سادہ کر لیا ہے
ملی ہے جب سے یادِ شہرِ طیبہ
ہر اک شے سے کنارہ کر لیا ہے
ترے روئے منور کی ضیا سے
قمر نے استفادہ کر لیا ہے
جو راہِ مصطفیٰ کی خاک پائی
اسے اپنا لبادہ کر لیا ہے
تلاطم خیز بحرِ زندگی میں
درودوں کو سفینہ کر لیا ہے
مجیبؔ اب تو دعا مقبول ہوگی
شہِ دیں کو وسیلہ کر لیا ہے