تمنّا کا خلاصہ آرہا ہے
مدینے سے بلاوا آرہا ہے
وہ اظہارِ تشکر سے ہے قاصر
نہیں الفاظ گویا آرہا ہے
سفینے سے مناظر تک رہا ہوں
قریب اپنے کنارہ آرہا ہے
نجانے تجھ تلک پہنچا نہیں کیوں؟
کوئی مدّت سے چلتا آرہا ہے
اجازت مرحمت فرمائیں آقا
کوئی بھولا کہ بھٹکا آرہا ہے
میں تو ملتان میں بیٹھا ہوا ہوں
نگاہوں میں مدینہ آرہا ہے
مرے مرنے پہ کوئی خواب دیکھے
کہ اشعرؔ سوئے روضہ آرہا ہے