تمہارے لحن میں ابھروں تو دائمی ٹھہروں
میں اس گمان میں قصہ ہوا ہی چاہتا ہوں
تم کو لکھا ہے تو لکھا ہے روشنائی سے
اب اپنے نام کی خاطر سیا ہی چاہتا ہوں
تو پھوٹتی ہوئی پَو ہے سو مجھ کو کیا جانے
چراغِ وقتِ سحر ہوں بجھا ہی چاہتا ہوں
میں ڈھل رہا تھا سو تجھ کو نہ ڈھالنا چاہا
نگارِ ناز ، میں تیرا بھلا ہی چاہتا ہوں
بھلے نہ تھام مگر ہاتھ چھو ذرا میرا
میں جی رہا ہوں بس اتنی گوا ہی چاہتا ہوں
وہ اور دور تھا جب ایڑیاں اٹھاتا تھا
ادھیڑ عمر ہے اب کج کلا ہی چاہتا ہوں
سفینے، موند سوالات سے بھری آنکھیں
فنا کے گھاٹ جو اترا ، فنا ہی چاہتا ہوں