شہر بانو کے لیے ایک نظم

تمہیں جب دیکھتا ھوں
تو مری آنکھوں پہ رنگوں کی پُھواریں پڑنے لگتی ھیں
تمہیں سُنتا ھوں
تو مُجھ کو قدیمی مندروں سے گھنٹیوں اور مسجدوں سے وِرد کی آواز آتی ھے
تمہارا نام لیتا ھوں
تو صدیوں قبل کے لاکھوں صحیفوں کے مُقدّس لفظ میرا ساتھ دیتے ھیں
تمہیں چُھو لُوں
تو دُنیا بھر کے ریشم کا مُلائم پن مری پَوروں کو آکر گُدگُداتا ھے
تمہیں گر چُوم لُوں
تو میرے ھونٹوں پر الُوھی، آسمانی، ناچشیدہ ذائقے یُوں پھیل جاتے ھیں
کہ اُس کے بعد مُجھ کو شہد بھی پھیکا سا لگتا ھے
تمہیں جب یاد کرتا ھوں
تو ھر ھر یاد کے صدقے مَیں اشکوں کے پرندے چُوم کر آزاد کرتا ھوں
تمہیں ھنستی ھوئی سُن لوں
تو ساتوں سُر سماعت میں سما کر رقص کرتے ھیں
کبھی تُم روٹھتی ھو
تو مری سانسیں اٹکنے اور دھڑکن تھمنے لگتی ھے

تمہارے اور اپنے عشق کی ھر کیفیت سے آشنا ھوں مَیں
مگر جاناں
تمہیں بالکل بُھلا دینے کی جانے کیفیت کیا ھے
مجھے محسوس ھوتا ھے
کہ مرگِ ذات کے احساس سے بھر جاؤں گا فوراً
تمہیں مَیں بُھولنا چاھوں گا تو مر جاؤں گا فوراً

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]