تم نے یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کیا؟
غارت گرِ شعُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں
سیراب صرف جسم کے ہونے پہ خوش رہوں؟
میں کیا کروں حضُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں
تیرا گِلہ ، کہ سر کو جھکاتا ہوں دیر سے
مجھ کو یہی غرور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں
منظر تراشتا ہوں مناظر سے ماوراء
مجھ سے نہ جاؤ دُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں
تیرا گناہ یہ ، کہ سراپاء خیال تُو
میرا یہی قصُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں
اُس کو خبر ہے یونہی نہیں چل دیا تھا میں
اتنا تو ہے ضُرور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں
بیٹھا ہوا ہوں دشتِ ہزیمت میں ہانپتا
دُہری تھکن سے چُور ، کہ میں سوچتا بھی ہوں