تھم گیا عالمِ دنیا کا چلن پل بھر میں
عازمِ عرش ہوئے شاہِ زمن پل بھر میں
جلوۂ شاہ میسر ہو لحد میں جس دم
آنکھ بن جائے مرا سارا بدن پل بھر میں
وہ بھی اوصاف محمد کے بیاں کرتا ہے
جس نے تخلیق کئے کوہ و دمن پل بھر میں
جیسے ہی نعت مری نوکِ زباں پر آئی
ہو گئی رحمتِ حق سایہ فگن پل بھر میں
صحنِ گلشن میں گئی بادِ ربیعِ اول
بڑھ گئی نرگس و لالہ کی پھبن پل بھر میں
خارِ صحرائے عرب میں تھی لطافت ایسی
ہو گئے اس پہ فدا سارے چمن پل بھر میں
تذکرہ کوئے منور کا کیا زائر نے
جاگ اٹھی دل میں حضوری کی لگن پل بھر میں
نطق نے جب بھی کیا اسمِ محمد کا طواف
مشکبو ہو گیا اشفاق دہن پل بھر میں