تیرا وصال اور فقط دل کے دام پر
ایسی عنایتیں نہیں کرتے غلام پر
میں نے سپردِ خاک سبھی رنگ کر دیے
خاکہ سا رہ گیا مرے چہرے کے نام پر
پھر یوں ہوا ، کسی نے تعارف کرا دیا
سر دُھن رہے تھے لوگ وگرنہ کلام پر
پھیلی شفق تو عارضِ گُل پوش ہو گئی
لب رکھ دیے ہیں تیرے فقیروں نے شام پر
مصروفِ رقصِ مرگ ہے مجذوبِ آرزو
تُو بے حجاب محوِ تماشہ ہے بام پر
الجھے رہے رکاب میں لاشے کے پَیر بھی
تھے ہاتھ وقتِ مرگ بھی میرے لگام پر
سینے سے آندھیوں کا بدن چیرتا رہا
جب تک کہ جھڑ نہیں گئے ناصر تمام ، پَر