تیری آغوش کی جنت سے نکالے ہوئے ہم
در بدر آج بھی ہیں خواب سنبھالے ہوئے ہم
جام ہو کر بھی کہاں تیرے لبوں تک پہنچے
جشن کی رات ہواؤں میں اچھالے ہوئے ہم
آ گرے لوٹ کے دامن میں ہی کھوٹے سکے
تیرے در سے بھی ہمارے ہی حوالے ہوئے ہم
رُل گئے خاک میں دوپہر کے ہوتے ہوتے
صبح کی گود میں صد ناز سے پالے ہوئے ہم
حسن ، سو بار ، سرِ بام ِ رسائی اُترا
اور کم بخت فقط دیکھنے والے ہوئے ہم
کرب کے کانچ کو پگھلا کے کئی روپ دیے
خواب لائے ہیں نئی شکل میں ڈھالے ہوئے ہم
تُو ، محبت کا وہ پرچم ، کہ زمیں بوس ہوا
اور ہتھیار ہیں میدان میں ڈالے ہوئے ہم
خیمہِ نُور کہاں اب ، کہ تری ہجرت سے
دشت کے جسم پہ ابھرے ہوئے چھالے ہوئے ہم