ثمرۂ شوق نئے غنچوں میں رکھا جائے
شجرۂ نعت مری نسلوں میں رکھا جائے
میرے بچوں کو بھی ہو مدحِ نبی کی توفیق
نسل در نسل مجھے بردوں میں رکھا جائے
با ادب نعت کہیں نعت پڑھیں نعت سنیں
پاک لفظوں کو ادب لہجوں میں رکھا جائے
گر نہیں نعمتِ دیدار ابھی قسمت میں
یہ بھی کافی ہے مجھے منگتوں میں رکھا جائے
مثلِ خورشید سحر سیرتِ تاباں کا پیام
وادئ زیست کی شب راہوں میں رکھا جائے
تیری یادوں کے جلا کر شبِ فرقت میں چراغ
قریۂ جاں کے سبھی طاقوں میں رکھا جائے
مصحفِ نعت کا نوری یہ ادب ہے لازم
بغض و نفرت سے تہی سینوں میں رکھا جائے