جائے تسکین ہے اور شہرِ کرم ہے ، پھر بھی
خلد ، صحرائے مدینہ سے تو کم ہے ، پھر بھی
گو گرفتارِ معاصی ہے سرشتِ نادم
ظلِ الطاف تو ہر وقت بہم ہے ، پھر بھی
عشق پڑھ پڑھ کے ترے چہرۂ دلکش کا نصاب
حسن بڑھ بڑھ کے تری زلف کا خَم ہے ، پھر بھی
خود بخود شعر میں ڈھل سکتی ہیں سطریں ، لیکن
نعت کا حرف تو اِک اِذنِ کرم ہے ، پھر بھی
طائرِ سدرہ کے پَر جلتے ہیں جِس سے آگے
اُس سے آگے ہی ترا نقشِ قدم ہے ، پھر بھی
خاورِ دل میں تو پھیلے ہیں تری یاد کے رنگ
اُ فقِ دید پہ اِک خواب رقم ہے ، پھر بھی
ساعتِ وصلِ مسلسل میں ہوں مقصودؔ ، مگر
ثروتِ شوق کو کیوں ہجر کا غم ہے ، پھر بھی