اردوئے معلیٰ

جائے تسکین ہے اور شہرِ کرم ہے ، پھر بھی

خلد ، صحرائے مدینہ سے تو کم ہے ، پھر بھی

 

گو گرفتارِ معاصی ہے سرشتِ نادم

ظلِ الطاف تو ہر وقت بہم ہے ، پھر بھی

 

عشق پڑھ پڑھ کے ترے چہرۂ دلکش کا نصاب

حسن بڑھ بڑھ کے تری زلف کا خَم ہے ، پھر بھی

 

خود بخود شعر میں ڈھل سکتی ہیں سطریں ، لیکن

نعت کا حرف تو اِک اِذنِ کرم ہے ، پھر بھی

 

طائرِ سدرہ کے پَر جلتے ہیں جِس سے آگے

اُس سے آگے ہی ترا نقشِ قدم ہے ، پھر بھی

 

خاورِ دل میں تو پھیلے ہیں تری یاد کے رنگ

اُ فقِ دید پہ اِک خواب رقم ہے ، پھر بھی

 

ساعتِ وصلِ مسلسل میں ہوں مقصودؔ ، مگر

ثروتِ شوق کو کیوں ہجر کا غم ہے ، پھر بھی

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ