جاتی ہیں بارشوں سے کر کے وضو ہوائیں
طیبہ میں جا کے ہوتی ہیں مشکبو ہوائیں
کوئے نبی سے نکلیں تو پھر اماں نہ پائی
پھرتی ہیں ماری ماری یوں کو بہ کو ہوائیں
بادِ نسیم صبح کا رُتبہ ملا ہے اُن کو
کرتی ہیں مصطفیٰ کی جب گفتگو ہوائیں
شہر نبی کی گلیوں سے ڈھونڈ کر ہیں لائیں
پھولوں میں بانٹتی ہیں جو رنگ و بو ہوائیں
ریگِ عرب کے ذرے لگتے ہیں چاند تارے
پانی سے کہہ رہی تھیں سرِ آب جو ہوائیں
مرے مصطفیٰ سا کوئی نہ ملا نہ مل سکے گا
سارے جہاں میں ڈھونڈا، پھریں چار سو ہوائیں
اشفاقؔ ہم بھی بھیجیں اپنا سلام اُن کو
کہہ دیں اگر ’’مواجہ‘‘ کے رُو برو ہوائیں