اردوئے معلیٰ

جاہ کا نَے حشم کا طالب ہوں

شاہِ بطحا! کرم کا طالب ہوں

 

کب بھلا جامِ جم کا طالب ہوں

میں تو دیدِ حرم کا طالب ہوں

 

جن کا صدقہ سبھی کو ملتا ہے

ان کی چشمِ کرم کا طالب ہوں

 

ایک اُن کا مدینہ مل جائے

حُور کا نے اِرم کا طالب ہوں

 

ہر گھڑی اُن کی مدح جو لکھّے

میں تو ایسے قلم کا طالب ہوں

 

ہجرِ سرکار میں رہے جو تَر

میں اُسی چشمِ نم کا طالب ہوں

 

عرشِ اعظم پہ جو گئی آصف

اُن کے نقشِ قدم کا طالب ہوں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ