جب کبھی تلخئ ایام سے گھبراتا ہوں
سر جھکاتا ہوں، ترے در پہ چلا آتا ہوں
بے یقینی کے اندھیروں میں چراغاں کے لیے
شمع مدحت کی جلاتا ہوں، ضیا پاتا ہوں
غم نہ کر، شہر محبت سے پیام آئے گا
ہجر میں دل کو اسے بات پہ ٹھہرتا ہوں
میں گنہگار کہاں، مدحت سرکار کہاں
بخت پر ناز ہے، اعمال پہ شرماتا ہوں
کملی والا مری تقدیر بدل دیتا ہے
ٹھوکریں کھاتا ہوں، ہر بار سنبھل جاتا ہوں
رات ڈھلتی ہے تو میں شہر شہِ دیں کی طرف
تحفۂ صلِ علی بھیج کے سو جاتا ہوں
قاسمِ نعمتِ حق ہیں میرے آقا اخترؔ
نعمت حق وہ کھلاتے ہیں تو میں کھاتا ہوں
میرے آبا کا شرف اُن کی غلامی اخترؔ
میں تو بچپن سے اس اعزاز پہ اتراتا ہوں