اردوئے معلیٰ

جذبات ڈھل رہے ہیں یوں شاعری کے فن میں

میں نعت لکھ رہا ہوں یادوں کی انجمن میں

 

بے مہر ہے زمانہ، نایاب صدق گوئی

پھر کیوں نہ آئے احسنؔ تلخی مرے سخن میں!

 

میں تابناک ماضی کی ضَو میں کھو گیا ہوں

کچھ روشنی نہ آئی پھر بھی مرے چلن میں!

 

آقا ! مری طرف بھی لِلّٰہ !چشمِ اُلفت!

میں خود ہی اجنبی ہوں اب تک مرے وطن میں

 

تہذیب سوختہ ہے، تعلیم بے جِہَت ہے

اسلام سو رہا ہے، اجسام کے کفن میں!

 

اے تاجدارِ بطحا ! اے رہنمائے عالم !

جگنو بھی اب نہیں ہے اس تیرہ انجمن میں!

 

اِک نام آپ کا ہے تسکین دینے والا

اِک یاد آپ کی ہے تارِ نفس بدن میں!

 

لِلّٰہ ! اپنے رَبّ سے اُمَّت کی ہو سفارش!

ایماں کی سانس لینا آساں ہو اس گُھٹن میں!

 

دیں، روح بن کے دوڑے بے روح اس جسد میں

اعمال جگمگائیں اِس ڈوبتی کرن میں!

 

آساں بہر زماں ہو پھر پیروی نبی کی!

پھر بے مثال ٹھہرے اُمَّت یہ بانکپن میں!

 

احسنؔ کے دل کی دھڑکن مایوسیوں میں گم ہے

بن کر لہو رواں ہو اُمید اِس کے تن میں

 

الفاظ سو گئے ہیں کاغذ کے پیرہن میں (ساغرؔ صدیقی)
منگل : ۳۰ ؍ رمضان المبارک ۱۴۲۷ھ…۲۴ ؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات