جس کو سب کہتے ہیں سمندر ہے

قطرۂ اشک دیدۂ تر ہے

ابروئے یار دل کا خنجر ہے

مژۂ یار نوک نشتر ہے

چشم عاشق سے دو بہے دریا

ایک تسنیم ایک کوثر ہے

خانۂ دل ہے غیر سے خالی

شوق سے آؤ آپکا گھر ہے

قطعی آج فیصلہ ہوگا

تیری تلوار ہے مرا سر ہے

اب تو دھونی رما کے بیٹھے ہیں

در جاناں پے اپنا بستر ہے

طمع ہر اک کا دین و ایماں ہے

جس کو دیکھو وہ بندۂ زر ہے

خوب دل کھول کر جفا کر لو

بندہ مدت سے اس کا خوگر ہے

بام پر جلوہ گر ہے وہ شاید

کوئے جاناں میں شور محشر ہے

کرتا عالم کو آہ سے برہم

لیک رعناؔ کو یار کا ڈر ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]