جنابِ شیرِ خدا کے قدموں میں سروری ہے
اور ان کی چاہت مرے مقدر کی روشنی ہے
درِ سخا سے علوم سارے ہی بٹ رہے ہیں
ہر اِک فراست یہاں مؤدب کھڑی ہوئی ہے
یہ ان کی تلوار پر ازل سے لکھا ہوا ہے
ترے مقابل ہر ایک طاقت کی بے بسی ہے
خدائے واحد نے اپنے پردے ہٹا دئیے ہیں
تمہارے سجدے بتا گئے ہیں یہ بندگی ہے
جہاں میں کربل سا ظلم ہوتا کبھی نہ دیکھا
ترے گھرانے کا شیوہ لیکن بہادری ہے
تمہاری سیرت کے سرورق پر یہی لکھا ہے
کہ حکمِ آقا کے بعد سب کچھ ہی ملتوی ہے
جو نامِ مولا علیؓ کو سن کر نہ جھوم اُٹھے
یہ اُس کے اندر کی مفلسی ہے یہ تیرگی ہے
وہ جب کہیں گے شکیلؔ مانگو بس اتنا کہنا
کہ میری حسرت ترے گداؤں کی نوکری ہے