جنوں کے ساتھ ابھی تک ہیں سلسلے گویا

تمہارے لمس کے سورج نہیں ڈھلے گویا

حریمِ حرف کوئی تان بخش دے اب تو

ترے ریاض میں اب کٹ چکے گلے گویا

بس اپنا آپ لپیٹا تھا زادِ رہ کہہ کر

بدن مٹا کے تری راہ پر چلے گویا

تری تلاش کے رستوں میں جذب ہو ہو کر

سرک سرک کے سمیٹے ہیں فاصلے گویا

خزاں رسید مسافت سے ہول اٹھتے تھے

بدن سے ٹوٹ کے گرتے تھے حوصلے گویا

عجب سماں کہ نظر راکھ سی بجھے جس میں

عجب خلا کہ تخیل کا پر جلے گویا

ہوئے جو راہ تو کیا کیا نہ پائمال ہوئے

ہمی کو روند کے بڑھتے تھے قافلے گویا

مقدروں کو حوادث نے شل کیا جیسے

نصیب دور کھڑا ہاتھ ہی ملے گویا

ہزار اور سفر سند باد کے لکھنا

جو ہو اٹھے کبھی پیروں کے آبلے گویا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]