جنوں کے ساتھ ابھی تک ہیں سلسلے گویا
تمہارے لمس کے سورج نہیں ڈھلے گویا
حریمِ حرف کوئی تان بخش دے اب تو
ترے ریاض میں اب کٹ چکے گلے گویا
بس اپنا آپ لپیٹا تھا زادِ رہ کہہ کر
بدن مٹا کے تری راہ پر چلے گویا
تری تلاش کے رستوں میں جذب ہو ہو کر
سرک سرک کے سمیٹے ہیں فاصلے گویا
خزاں رسید مسافت سے ہول اٹھتے تھے
بدن سے ٹوٹ کے گرتے تھے حوصلے گویا
عجب سماں کہ نظر راکھ سی بجھے جس میں
عجب خلا کہ تخیل کا پر جلے گویا
ہوئے جو راہ تو کیا کیا نہ پائمال ہوئے
ہمی کو روند کے بڑھتے تھے قافلے گویا
مقدروں کو حوادث نے شل کیا جیسے
نصیب دور کھڑا ہاتھ ہی ملے گویا
ہزار اور سفر سند باد کے لکھنا
جو ہو اٹھے کبھی پیروں کے آبلے گویا