جو آگ کو گلزار کرے کوئی نہیں ھے

حق بات سر دار کرے کوئی نہیں ھے

منسوب تو سورج سے کئی نام یہاں ہیں

جو تیرگی کو تار کرے کوئی نہیں ھے

آباد جہاں صورت انساں ہیں درندے

ان محلوں کو مسمار کرے کوئی نہیں ھے

سب گنگ زبانیں ہیں یہاں شاہ کے آگے

جو رائے کا اظہار کرے کوئی نہیں ھے

قاتل کو ہی شاباش دیئے جاتے ہیں سب لوگ

جو اسکو نگوں سار کرے کوئی نہیں ھے

سب نیند کی گولی ہی کھلاتے ہیں مسیحا

جو نیند سے بیدار کرے کوئی نہیں ھے

مجرم تو مرے دیس کا ہر شخص ہے اسلم

جو جرم کا اقرار کرے کوئی نہیں ھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]