جو بھی نکلا تری محفل سے نہ تنہا نکلا

دل میں اپنے لیے ارمانوں کی دنیا نکلا

کوئی ایسا، کوئی ویسا، کوئی کیسا نکلا

لاکھ بندوں میں اک اللہ کا بندہ نکلا

رخِ ظلمت کدۂ دہر ہوا نورانی

مطلعِ دہر پہ جب سے مہِ بطحا نکلا

ہم جسے ذرہ ناچیز سمجھتے تھے وہی

اپنے باطن میں لیے اک نئی دنیا نکلا

اشک بہہ جائیں جو آنکھوں سے، ذرا دل ٹھہرے

ہم غریبوں کا یہی ایک سہارا نکلا

غمِ دنیا، غمِ عقبیٰ، غمِ فردا پا لے

دل تو اپنے ہی لہو کا یہ پیاسا نکلا

دشتِ غربت میں ہمیں ایک نہیں ہیں تنہا

جستجو میں تری ہر ذرہ صحرا نکلا

دامِ دنیا میں نظرؔ پھنس ہی گیا دل آخر

لاکھ سمجھاتے رہے کچھ نہ نتیجہ نکلا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]