جو خود سپردگی تھی جنوں کی اساس میں
اب ممکنات میں نہ قرین قیاس میں
اعصاب مرتعش تو سماعت میں شور ہے
لایا گیا ہوں کھینچ کے ہوش و حواس میں
عریاں ہوئے نہ عیب بہرحال شکر ہے
پیوند بے شمار ہیں چاہے لباس میں
کس کس کے بوکھلا کے گلے سے نہیں لگا
کتنے ہی ہاتھ تھام کے دیکھے ہراس میں
کاسے میں ڈھل گئی ہے مری ملتجی انا
بے چارگی تو دیکھ مرے التماس میں
ہلکا سا ذائقہ ہے گزشتہ شکست کا
تلخی سی ہے تمہارے لبوں کی مٹھاس میں
تھا حسن جو نظر میں تو حیرانیوں کا تھا
کیا رہ گیا نگاہ زمانہ شناس میں
اک عمر اور ہو تو محبت میں کٹ سکے
اک عمر کاٹ دی ہے محبت کی آس میں
خوشبو کا انتشار علامت فنا کی ہے
اڑتا ہے رنگ پھول کا یعنی کہ باس میں