جو رنگ ہرے تھے وہ دکھائی نہیں دیتے
دکھ درد ہی پیڑوں کو رہائی نہیں دیتے
برباد کیا یوں میرے گلشن کو خزاں نے
اب گیت پرندوں کے سنائی نہیں دیتے
کچھ اور بڑھا دے نہ ستم باغ کا مالی
سہمے ہوئے طائر ہیں دہائی نہیں دیتے
آنے کو قیامت ہے کوئی اپنے جہاں پر
حالات مجھے ٹھیک دکھائی نہیں دیتے
جن لوگوں کے کردار ہیں تعظیم کے قابل
دکھ یہ ہے کہ ہم ان کو بڑائی نہیں دیتے
کن لوگوں سے خیرات طلب کرنے لگے ہو
کپڑے کی جو درزی کو سلائی نہیں دیتے
کردار کی پستی کا یہ اب حال ہے اسلمؔ
انسان بھی انسان دکھائی نہیں دیتے