جو زندگی میں کہیں سخت موڑ آتے ہیں
مرے حسین مجھے راستہ دکھاتے ہیں
غموں کی دھوپ سے بچنے کے واسطے شبیر
تمہاری یاد کو ہم سائباں بناتے ہیں
وہ جن کا سارے زمانے میں بول بالا ہے
مرے حسین کے در سے ہی فیض پاتے ہیں
سنوارتے ہیں وہ دنیا بھی اور عقبیٰ بھی
درِ حسین پہ جو اپنا سر جھکاتے ہیں
کبھی ستا نہیں سکتا انہیں غمِ دارین
غمِ حسین کلیجے سے جو لگاتے ہیں
علی کے لعل ہیں وہ فاطمہ کے نورِ نظر
فرشتے جن کی بزرگی کے گیت گاتے ہیں
حسینِ پاک کی نسبت کا یہ اثر دیکھو
بلا و رنج سدا ہم سے مات کھاتے ہیں
مرے خیال کے سارے دریچے سب در و بام
حسین تیرے تصور سے جگمگاتے ہیں
مجیبؔ ان کی فضیلت بیاں کروں کیسے
مرے رسول جنہیں دوش پر بٹھاتے ہیں