جو عبث ہم پہ رہا شک اُس کا
ہے نہیں ہم کو گِلہ تک اُس کا
خود کو محدود کیا ہے اُس تک
ہے مری ذات پہ بس حق اُس کا
روز آتا تھا وہ تجھ سے مِلنے
یوں تو تھا دور بہت چک اُس کا
وہ ترے پیار کا دم بھرتا ہے
تو بھی کچھ مان کبھی رکھ اُس کا
وہ جسے تم سے محبت تھی ، ہے
ہو تمہیں ساتھ مبارک اُس کا
اتنے بھی پاس نہ جاؤ اُس کے
دل کرے گا نہیں دھک دھک اُس کا؟
مرتضیٰ کھیل رہے تھے ’’لڈّو‘‘
آگیا فون اچانک اُس کا