جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے
سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے
واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں
ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے
تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح
ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے
یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر
اک ظاہری اڑان بچی تھی سو بھر چکے
یہ بھی خبر نہیں ہے مسیحائے عشق کو
دل بھر چکا ہے یا کہ ترے زخم بھر چکے
تھا اک غرورِ وصفِ خدائی نہیں رہا
اور ایک تھی جبین جو قدموں میں دھر چکے
آباد ہے خیال کی شاخوں پہ آشیاں
تنکوں کا پوچھتے ہو تو تنکے بکھر چکے